Best urdu stories with moral lesson
Agr ap Best urdu stories with moral lesson Urdu stories online read krna chhaty hain to ap ak best website per hain.Yahan per apko her topics k matalq urdu stories dakhne ko mely gi.Iss post mai esi amazing kahaniyano ko ap easily read kr sakty hain jo k bilkul suchi kahaniyan hai. aur jo zingadi mai apko ak batreeen lesson farahm kairn gii.
:دلہن اور جنات کی کہانی
السلام علیکم! آج کی اس کہانی میں ایک دلہن کے سچے واقعے کوبیان کیا جائے گا۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک مسنون عمل کا بھی ذکر کیا جائے گا اور آپ کی سنت کی کیا برکات ہیں۔ اور ان مسنون عمل کو نہ کرنے سے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے کی ایک دلچسپ کہانی ہے جو ہمیں ایک اہم سبق سکھاتی ہے۔کچھ وقت پہلے، حضرت شاہ صاحب کے دور میں ایک بارات گزر رہی تھی جس میں اونٹوں اور بیل گاڑیوں پر باراتیاں جا ر تھی ۔راستے میں رات پڑ گئی اور بارات والوں نے رات ادھر گزرنے کا فیصلہ کیا لہذا انہوں نے وہی پڑاؤ کیا ۔ دلہن کو رات میں پیشاب کی حاجت ہوئی ۔ وہ اٹھی کہ رات کو کسی کو کیا جگاؤں، ویسے بھی ایک حجاب اور شرم سی ہوتی ہے اور حاجت کے لیے چلی گئی ۔
دلہن غائب
صبح ہوگئی تو دیکھا کہ دلہن ہی نہیں ہے۔ سب باراتی پریشان ہوگئے کہ دلہن کہاں گئی؟ بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی دلہن نہیں ملی۔ آخر کار، باراتیوں نے حضرت شاہ صاحب کے پاس پہنچ کر اپنی مشکل سنائی۔حضرت نے انہیں ایک طریقہ بتایا کہ کتنا اہم ہے کسی بھی کام کو مسنون طریقے سے کرنا۔حضرت شاہ صاحب نے کہا کہ تم اپنے ساتھ روٹیاں لے کر جاؤ اور دہلی کے چاندنی چوک پر پہلا کالا کتا نظر آنے پر ان روٹیوں کو اس کے سامنے ڈال دو، پھر اس کا پیچھا کرو۔
باراتیوں نے یہی کیا اور کالا کتا آ کر ان روٹیوں کو لے گیا اور دوڑتے دوڑتے جنگل بیابان پہنچ گیا۔ وہ جنوں کے ساتھ مل کر کہنے لگے کہ یہاں کیسے آئے؟ باراتیوں نے انہیں پوری کہانی بتائی۔جنوں نے انہیں یہ بتایا کہ ان کے پاس اس مسنون دعا کی معلومات نہیں تھی۔جو بیت الخلاء میں جانے سے پہلے پڑھی جاتی ہے یاحاجت سے پہلے یا ستر کھولنے سے قبل پڑھی جاتی ہے۔ اگر انہوں نے وہ دعا پڑھی ہوتی تو ان کی پریشانی دور ہو جاتی۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر بیان کیا کہ ایک چھوٹی سی مسنون دعا سے آدمی کتنی بڑی مشکلات سے بچ سکتا ہے۔ اور انہوں نے باراتیوں کو یہ سبق دیا کہ کسی بھی کام کو مسنون طریقے سے کرنا کتنا اہم ہے۔ دیکھیں ! ایک چھوٹی سی مسنون دعا چھوڑی اور بڑا نقصان ہوا اور پریشانی شروع ہوئی۔ آئندہ اس دعا کو کبھی مت چھوڑنا۔
Story No 2:
:مسنون عمل اور یہودی کا واقعہ
ایک عبرتآموز واقعہ ہوا جس میں ایک یہودی کو نجات ملی۔ وہ یہودی، مسلمانوں کے معمولات کو مذاق سمجھتا تھا۔ اوروہ مسلمانوں کی عبادات کو بھی مذاق سمجھتا تھا۔ایک دن کئی صحابہ کرام حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو سیکھ رہے تھے۔یہ یہودی بھی سب کچھ دیکھ رہ تھا ۔ تو تھوڑی دیر بعد یہودی نے مذاق کیا کہ
مسلمانوں کا بیت الخلاء جانا بھی عبادت ہوتی ہے! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر رد عمل کیا اور کہا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بیت الخلاء میں جانےسے وہ وقت بھی عبادت بن جاتا ہے۔ اس وقت صحابہ کرامو رضوان اللہ علیہم سیکھ رہے تھے اور وہ یہودی دیکھ رہا تھا۔
دشمن تاک میں
ایک دن، یہودی حاجت کے لئے بیت الخلاء گیا جو کہ جنگل میں تھا۔ ایک دشمن اس کے پیچھے تاک میں بیٹھا تھا جو انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اس کا موقع آ گیا ہے۔ اس نے رسہ اڑایا جو اس یہودی کے گلے میں گر پڑا۔ یہودی نے مسنون طریقے سے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بیت الخلاء میں جاتے وقت کیا جاتا ہے۔اس نے رسے کو باہر نکال دیا اور اس نے حیرانی کا اظہار کیا کہ مسلمانوں کے نبی کے چھوٹے سے عمل نے اس کی جان کو بچا لیا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا پیروی کرتے ہوئے مذاق کرنے کی بجائے اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جہالت کے دور میں بھی صداقت، انصاف اور نیک نیتی کی پہچان کرنا ضروری ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے سے ہم زندگی کی مختلف مواقع میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اگر ہم اپنے بیت الخلاء کے نظام کو مسنون طریقے سے درست کریں ۔تو ہم بیماریوں اور پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں۔
Story No 3:
نفس کی نہ ماننے کا انعام
ایک درویش کسی شہر میں رہتے تھے ، عیال داربھی تھے آپ کو نور باطن سے معلوم ہوا۔ ایک ولی اللہ مجذوب کامل جنگل میں شہر سے ایک دو میل کے فاصلے پر بھو کے پڑے ہیں۔اور بے ہوش ہو رہے ہیں ان کے دل میں آیا کیا ہی اچھا ہو جو کوئی اس مجذوب کو روٹی کھلا آئےچونکہ آپ خود پاؤں سے معذور تھے چل پھر نہ سکتے تھے۔آپ نے اپنی عورت سے کہا ان کی عورت صالح تھی ۔اور فرمانبردار ، اس نے عرض کی کہ اگر مجھے اس کار خیر کی اجازت ہو تو میں اس کام کو سر انجام دے سکتی اور ہوں۔آپ نے فرمایا : اجازت ہے جاؤ کھلا آؤ چنانچہ وہ روٹی لے کر چلنے تیار ہو گئیں ۔ لیکن اس جنگل اور شہر کے درمیان ایک دریائے عظیم تھا کہ اس سے گزرنا دشوار تھا۔
اس عورت نے کہا کہ کیا کروں ، روٹی تو لے جاتی مگر اس وقت کشتی نہیں ملتی۔ کیونکہ رات کا وقت بہت گزر چکا اور تیر نا نہیں جانتی۔ یہ سن کر اس بزرگ نے فرمایا کہ تو روٹی لے جا۔ جب دریا کے کنارے پر پہنچے تو دریا کو میرا اسلام کہنا۔ اس کو کہنا کہ میرے خاوند نے آپ کو کہا ہے کہ میں نے تمام عمر اپنی عورت سے ازدواجی تعلق نہیں کیا۔ اگر اس کا یہ کہنا سچ ہے تو مجھے راستہ دے دے۔ عورت نے کہا کیا عجیب بات ہے ہمارے تو چار بچے ہیں۔
دریا نےراستہ دیا
آپ جھوٹ بول کر دریا سے راستہ مانگتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا کہ تو اسی طرح دریا سے کہہ دے اگر وہ راستہ دے دے گا۔ تو اس بات کو سچ جان لینا اور گزر جانا ، ورنہ پھر واپس آ جانا ۔ چنانچہ وہ چلی گئی اور جب دریا کے کنارے پر آئی اور اس دریا سے کہاتو دریا نےراستہ دےدیا۔ عورت چلی گئی اور اس بزرگ کے آگے روٹی رکھ دی۔ انہوں نے بغیر پوچھے خوب شکم سیر ہو کر روٹی کھائی ۔ حلال رزق تھا اس سے خوب راحت حاصل ہوئی۔
رخصت کے وقت کہا کہ پہلے تو میرے خاوند نے مجھے ایک بات کہی تھی میں وہ کہہ کر دریا کو پار کر آئی۔ چنانچہ میں نے کہا اور دریا نے راستہ دے دیا۔ حالانکہ میرے چار بچے خاوند کے نطفہ سے موجود ہیں۔ آپ بھی کچھ فرمائیے تا کہ راستہ مل جائے اور گھر پہنچ جاؤ۔ ان بزرگ نے تبسم فرمایا اور کہا کہ اسے نیک بخت ! جادریا سے میر اسلام کہہ کر یہ کہہ دینا کہ وہ فقیر جس کو میں روٹی کھلا کر آئی ہوں کہتا ہے کہ میں نے تمام عمر میں کبھی روٹی نہیں کھائی۔ اگر یہ بات سچ ہے تو مجھے راستہ دے دے۔
پھر انکار فقیر نے جواب دیا کہ اے نیک بخت جھوٹ نہیں ۔ اس معاملہ میں ہم دونوں بچے ہیں اور خدا تعالی نے ہمارا یہ پیچ قبول فرما لیا ہے۔ تیرے خاوند نے جو کہا کہ میں نے کبھی اپنی عورت سے ازدواجی تعلق نہیں کیا تو وہ سچا ہے ۔ کہ اس نے شہوت کے حکم یا نفس کی لذت و خواہش اور عیش کے خیال سے کبھی یہ کام نہیں کیا بلکہ خدا تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کہ اس نے مجھ پر اس کا حق فرض کیا ہےاس علم کوادا کیا نہ کہانی سنی لذت کے واسطے۔
امتحان میں کامیاب
جب اس نے حکم الہی کی تکمیل کی تو پھر یہی کام اس کی عبادت میں لکھا گیا ۔ اور کثرت خلوص کے ساتھ وہی عبادت مظہر تجلیات رضائے الہی ہوگئی ۔ اس نے نفس و شہوت کے غلبہ کو دبا کر حکم انہی کے تابع کر کے کام کیا ۔ اور میں نے جو کہا ہے کہ میں نے روٹی کبھی نہیں کھائی ۔ سو در اصل میں نے پیٹ بھرنے اور لذت اور خوشی کے واسطے کبھی نہیں کھائی۔ بلکہ فنانس اور بدن کا جوق میرے اوپر اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہوا ہے وہ حکم ادا کرنے کے واسطے کھاتا ہوں۔
اس میں لذت اور شہرت کا کچھ دخل نہیں۔ امتحان کی غرض سے یہ کہا گیا کہ ہمارایہ عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول ہو گیا یا نہیں ۔ جب وہ عورت واپس آئی تواس طرح دریا کو پھر کہا۔ چنانچہ بدستور سابق پھر راستہ ہو گیا۔ اور در یاسے نکل کر گھر آئی اورتمام قصہ اپنے خاوند سے بیان کیا تو انہوں نے سجدہ شکر ادا کیا کہ الحمد للہ میرا اعمل بے ریار ہا اور اللہ تعالی نے قبول فرمالیا۔
Story No 4:
:عابد اور شیطان کی کہانی
بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا جو ہر وقت عبادت میں مشغول تھا۔ ایک جماعت اس کے پاس آئی اور کہا کہ یہاں ایک قوم ہے جو ایک درخت کو پوجتی ہے۔سن کر اس کو غصہ آیا اور کلہاڑا کندھے پر رکھ کر اس کو کاٹنے کے لئے چل دیا ۔ اور راستہ میں شیطان ایک پیر مرد کی صورت میں ملا ، عابد سے پوچھا کہاں جارہے ہو۔ اس نے کہاں فلاں درخت کاٹنے جارہا ہوں۔ شیطان نے کہا تمہیں اس درخت سے کیا واسطہ تم اپنی عبادت میں مشغول رہو تم نے اپنی عبادت کو ایک مہمل کام کے واسطے چھوڑ دیا۔ عابد نے کہا یہ بھی عبادت ہے۔
شیطان نے کہا میں نہیں کاٹنے دوں گا۔ دونوں میں مقابلہ ہوا ، وہ عابد اس کے سینے پر چڑھ گیا ، شیطان نے اپنی بے بسی کو دیکھ کر خوشامد کی۔اور کہا اچھا ایک بات سن لے عابد نےاسے چھوڑ دیا شیطان نے اسے کہا کہ اللہ نے تجھ پر اس کو کاٹنا فرض تو نہیں کیا تیرا اس سے کوئی نقصان نہیں ۔تو اس کی پرستش نہیں کرتا، اللہ کے بہت سے نبی ہیں اگر وہ چاہتا تو کسی نبی کے ذریعہ سے اس کو کٹوا دیتا ۔ عابد نے کہا میں ضرور کاٹوں گا۔
عابد اور شیطان کامقابلہ
پھر مقابلہ ہوا وہ عابد پھر اس کے سینے پر چڑھ گیا۔ شیطان نے کہا اچھا سن ایک فیصلہ والی بات تیرے نفع کی کہوں ، اس نے کہا کہہ۔ شیطان نے کہا تو غریب ہے دنیا پر بوجھ بنا ہوا ہے تو اس کام سے باز آ میں تجھے روزانہ تین دینار ( اشرفی ) دیا کروں گا جو روزانہ تیرے سرہانے رکھے ہوئے ملا کریں گے ۔ تیری بھی ضرورتیں پوری ہو جائیں گی ، اپنے رشتہ داروں پر بھی احسان کر سکے گا۔
فقیروں کی مد دکر سکے گا اور بہت سے ثواب کے کام کر سکے گا ، اس میں ایک ہی ثواب ہوگا اور وہ بھی بیکارکہوہ لوگ پھر دوسر ا لگالیں گے۔عابد کی سمجھ میں آگیا قبول کر لیا ، دو دن تو وہ ملے تیسرے دن سے ندارد عابد کو غصہ آیااورکلہاڑی لے کر پھر چا
راستہ میں وہ بوڑ ھاملا پوچھا کہاں جارہا ہے؟ عابد نے بتایا کہ اس درخت کو کاٹنے جارہا ہوں ، بوڑھے نے کہا تو اس کو نہیں کاٹ سکتا۔ دونوں میں جھگڑا ہوا وہ بوڑ ھا غالب آگیا اور عابد کے سینہ پر چڑھ گیا ، عابد کو بڑا تعجب ہوا اس سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ تو اس مرتبہ غالب ہو گیا۔اس بوڑھے نے کہا پہلی مرتبہ تیرا غصہ خالص اللہ کے واسطے تھااس لئے اللہ جل شانہ، نے مجھے مغلوب کر دیا تھا مرتبہ دیناروں کا دخل تھا اس لئے تو مغلوب ہوا، حق یہ ہے کہ جو کام خالص اللہ کے واسطے کیا جاتا ہے اس میں بڑی قوت ہوتی ہے۔
Story No 5:
:امام ابو داؤا کی بخشش کا واقعہ
امام ابو داؤ درحمہ اللہ ایک بہت بڑے محدث گزرے ہیں ایک مرتبہ وہ کشتی میں سفر فرمارہے تھے۔ ان کے سامنے سے ایک اور کشتی آرہی تھی انکو سفر کے دوران اس وقت چھینک آئی جب سامنے سے آنے والی کشتی بالکل قریب تھی ۔چنانچہ انہوں نے چھینک آنے پر الحمد للہ کہا، ساتھ والی کشتی میں ایک آدمی نے ان کی زبان سے الحمد للہ کے الفاظ سنے تو جواب میں یرحمک اللہ کہا ۔جب حضرت امام داؤ درحمہ اللہ نے جواب دینا تھا تو کشتی دور جا چکی تھی اور وہاں تک آواز نہیں پہنچ سکتی تھی۔
چنانچہ جب آپ کنارے پر پہنچے تو وہاں جا کر آپ نے ایک اور کشتی کرائے پر لی اور ایک درہم اس کشتی کے مالک کو دیا پھر کشتی میں بیٹھ کر اس بندے کو جس نے یرحمک اللہ کہا تھا اس کو جواب میں يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ “ کہا اور واپس تشریف لے آئے ۔
رات کو جب سوئے تو خواب میں کسی کہنے والے نے کہا امام ابو داود رحمہ للہ کو مبارک دے دو کہ انہوں نے ایک درہم کے عوض جنت خرید لی ہے ۔اللہ اکبرہمارے بڑے کس کس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے عمل کیا کرتے تھے اسی وجہ سے ان کا فیض آج تک جاری ہے۔ آج دنیا ان کی کتابیں پڑھ رہی ہے اور اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزار رہی ہے ۔ وہ حضرات اپنی قبروں کے اندر اس کا اجر و ثواب حاصل کر رہے ہیں ۔
Read more:
2 Comments