Read the talking almonds story in urdu in an amazing way. This story teaches us that communication works both ways. Listening is as important as speaking. We should strive to learn from everyone, whether they are human or almonds! In this story, magical, friendly, and humorous elements are included, making it interesting for children.”I hope you will enjoy reading Talking almonds story in urdu. So, let’s start the story.”
باداموں کی باتیں
ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک عاصم نام کا لڑکا رہتا تھا۔ اس کے پاس ایک خوبصورت باغ تھا جہاں ہر طرح کے پھول اور پھل تھے۔ باغ کے ایک کونے میں ایک بادام کا درخت تھا جس پر ہر سال بہت زیادہ بادام لگتے تھے۔ لیکن یہ بادام خاص تھے۔ وہ بات چیت کرتے تھے!
ایک دن، عاصم درخت کے نیچے بیٹھا باداموں کو توڑ رہا تھا جب اس نے ایک بادام کی آواز سنی۔
“ارے! ہلکا ہاتھ رکھو، بھائی!”
عاصم حیران رہ گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں ملائیں اور پھر سے دیکھا۔ لیکن اسے کوئی نہیں دکھائی دیا۔ پھر اس نے دوسرا بادام توڑا۔
“میں یہاں ہوں، اوپر! دیکھو مجھے!”
یہ آواز اتنی واضح تھی کہ عاصم کو یقین ہو گیا کہ بادام واقعی بات کر رہے تھے۔ اس نے باقی بادام توڑنا روک دیا اور درخت سے پوچھا، “کیا تم واقعی بولتے ہو؟”
“بالکل بولتے ہیں!” درخت ہنسنے لگا۔ “ہم تو ہمیشہ سے بولتے ہیں، لیکن کسی نے کبھی ہماری نہیں سنی!”
عاصم کو بہت خوشی ہوئی۔ وہ اب روزانہ باداموں کے ساتھ گپ لگاتا تھا۔ وہ ان سے دنیا کے بارے میں سیکھتا، انہیں اپنے گاؤں کی کہانیاں سناتا، اور ان کے ساتھ لطیفے مذاق کرتا۔ بہت جلد، وہ بہترین دوست بن گئے۔
باتونی باغ
ایک دن، ایک طوطا گاؤں میں آگیا۔ وہ درخت پر بیٹھا اور باداموں کو باتیں کرتے سن کر حیران رہ گیا۔ اس نے عاصم کو یہ راز نہ رکھنے کی تاکید کی اور پوری دنیا کو اس حیران کن درخت کے بارے میں بتانے کا کہا۔
جلد ہی، گاؤں بھر کے لوگ باداموں سے بات چیت کرنے کے لیے عاصم کے باغ میں آنے لگے۔ وہ باداموں سے اپنی مشکلات پوچھتے، مشورے لیتے، اور ان کی دلچسپ کہانیاں سنتے۔ باداموں کی باتوں میں ایک خاص جادو تھا جو سب کو خوشحال کر دیتا تھا۔
عاصم بڑا خوش تھا کہ اس کے دوست نے سب کو خوشی دی ہے۔ اس نے ایک خاص جگہ بنائی جہاں لوگ آ کر باآسانی باداموں سے بات چیت کر سکتے تھے۔ اس جگہ کو “باتونی باغ” کا نام دیا گیا اور یہ گاؤں کی سب سے مشہور
جگہ بن گئی۔
لیکن ایک دن، عاصم کو پریشانی ہو گئی۔ باداموں نے بات کرنا بند کر دیا۔ عاصم بہت اداس ہوا اور درخت سے پوچھا، “کیا ہوا؟ کیوں نہیں بولتے تم ہو۔
درخت نے جواب دیا، “ہم سب کچھ سنا چکے، بھائی۔ اب ہمارے سیکھنے کا وقت آگیا ہے۔ تمہاری کہانیاں سن کر ہم بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ اب تم سے سیکھیں گے۔”
عاصم کو سمجھ آ گیا۔ اس نے باتیں کرنا بند کر دیا اور باداموں کی پوری توجہ سے کہانیاں سنتا رہا۔ وہ ان کے تجربات اور ان کی باتوں سے سیکھ رہا تھا۔
یہ اس دن سے ایک خوبصورت روایت بن گئی۔ لوگ نہ صرف باداموں سے بات چیت کرتے بلکہ بادام ان سے سنتے بھی تھے۔ باغ خوشی اور سیکھنے کا مرکز بن گیا۔
سبق
یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ بات چیت دونوں طرف سے ہوتی ہے۔ سننا بھی بولنے کے جتنا ہی اہم ہے۔ ہر کسی سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، چاہے وہ انسان ہو یا پھر بادام! اس کہانی میں جادو، دوستی، سیکھنے کا سبق، اور مزاحیہ عناصر شامل ہیں جو اسے بچوں کے لیے دلچسپ بنا دیتے ہیں۔
Read more :