A khushiyon bhara silsila Urdu Stories for kids ka jo khaas tor par chhotay bachon ke liye banaya gaya hai! Hamare dilchaspi angaiz afsanay se apne chhote dosto ko Urdu zaban aur culture se rubaru karayein. Har kahani bachon ke zehan ko gherayi sath le kar, sath hi sabaq amooz aur ahlakiyat bhi sikhati hai. Jadoo bhari mosem se lekar dilchasp kahaniyon tak,Urdu Stories for kids ‘Urdu Urdu zaban aur ilm mein bachon mein muhabbat paida karne ka maqsad rakhta hai. Humare sath judein is roshni bhari safar mein, jahan har safa ek naya jahan khulta hai, her muskurahat, her hansi, aur her hikayat bachon ke liye ek nayi duniya ka izhar karti hai.”
قربانی کے بکرے کی کہانی
اس گھر میں بہت خوش تھا مجھے انسان اچھے لگنے لگے تھے۔ میں سوچتا تھا یہ سب انسان کتنے پیارے ہوتے ہیں جو ہم جانوروں سے اتنا پیار کرتے ہیں۔ میں نے کبھی اپنے – دوستوں کی باتوں کا یقین نہیں کیا جو یہ کہتے تھے کہ انسان بہت برے ہوتے ہیں اور وہ جانوروں سے برا سلوک کرتے ہیں۔ ان کی ان باتوں کا اس لیے یقین نہیں کرتا تھا ۔ کیونکہ میں بہت شرارتی بھی تھا اور خوب شرارتیں کرتا تھا لیکن ۔ میرے مالک نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا تھا۔ کچھ دنوں سے میں مسلسل یہ دیکھ رہا تھا کہ میرا مالک بہت پریشان رہنے لگا ہے۔ اس کی نظر جب بھی مجھ پر پڑتی تو وہ اداس اور غمگین ہو جاتا تھا۔ اگلی صبح میں معمول کے مطابق جب کچھ ہی دور اپنے دوستوں سے ملنے گیا۔ تو وہاں بہت کم تعداد میں میرے دوست کھڑے تھے۔
بکرے کی اداسی
میں نے ایک قدرے بڑی عمر کے دوست سے جا کر پوچھا کہ سب کہاں چلے گئے تو اس نے مجھے ایک الگ ہی کہانی سنادی۔ اس نے کہا: عید الاضحی آنے والی ہے، اس میں مسلمان اللہ کے حکم سے جانور ذبح کر کے قربانی کی سنت پوری کرتے ہیں ۔ ہم بکروں اور بکریوں سمیت اونٹ ، بیل، بھیڑ وغیرہ کی بھی قربانی کی جاتی ہے۔ میں یہ سب سن کر حیران تو بہت ہوا۔
لیکن آہستہ آہستہ مجھے سب باتیں سمجھ میں آگئیں، ، مجھے اپنے مالک کے غمکین ہونے کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی کہ میرا مالک بھی مجھے یونہی ایک دن فروخت کر کے اپنے اوپر چڑھا ہوا بہت سا قرضہ اتار تو دے گا لیکن میری جدائی کا سوچ کر وہ اداس اور غمگین ہو جاتا ہے۔ آخر ایک دن صبح کو میرے مالک نے میرے گلے میں رسی ڈالی اور مجھے گھر کے دروازے تک لے آیا، اچانک مجھے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میرے مالک کے دونوں لگے بچے بھی مجھے پُرنم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ۔ جیسے الوداع و کہہ رہے ہوں ۔
پریشان بکرا
بکرا منڈی میں نہ جانے کہاں کہاں سے جانور لائے گئے تھے۔ میرے لیکن مالک نے میرے سفید جسم پر مہندی لگائی ہوئی تھی ۔ تاکہ میں خوبصورت نظر آؤں۔ ابھی میں منہ اٹھائے بکرا منڈی کا اتھا ۔ جائزہ لے ہی رہا تھا کہ دو نوجوان، بہت میرے مالک کے پاس آئے اور میرے بارے میں پوچھنے تو وہ لگے۔ انسانوں کے ساتھ رہ کر مجھے ان کی باتیں سمجھ میں آنے لگیں تھیں۔ اچانک ان دونوں نوجوانوں میں سے ایک نے
اپنے ہاتھوں سے میرے منہ پر ہاتھ رکھا اور میرا منہ کھول کر دیکھنے لگا۔آخر اس نے میرے منہ میں موجود دانتوں کو دیکھ کر میرامنہ چھوڑ دیا۔ میں نے سکھ کا سانس لیا۔ میرا منہ چھوڑ کر وہ میری گردن پر ہاتھ پھیر نے لگا۔ آخر کار وہ دونوں چلے گئے اور میں نے شکر ادا کیا کہ ان کو میں پسند نہیں آیا۔ میں ہر کسی کو اپنی آزمائش کروا کروا کر تھک گیا تھا۔ نہ جانے یہ سب میرے منہ میں کیا تلاش کر رہے تھے۔ خدا خدا کر کے رات کا وقت ہوا اور بکرا منڈی میں کچھ سکون نظر آنےلگا۔ میرا تھکن کے مارے براحال ہو رہا تھا۔ اور نہ جانے کب مجھے نیند آ گئی۔
مالک کی پریشانی
آج منڈی میں میرا تیسرا دن تھا۔ میرے مالک کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے ۔ اول میں کسی کو پسند نہیں آتا تھا۔ اور جو پسند کر لیتا وہ میری قیمت سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا چلا جاتا تھا۔ آج بھی میں کسی کو پسند نہیں آیا تھا وہ میری قیمت سن کر بھاگ جاتے تھے۔ ظاہر ہے کہ میں گاؤں کا پلا بڑھا ایک صحت مند بکر ا تھا۔
میرے مالک نے تو میری اچھی قیمت لگانی تھی ۔ عید میں تھوڑے ہی دن رہ گئے تھے ۔ شام کا وقت قریب تھا کہ ایک بڑی عمر کا آدمی اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ میرے پاس آیا، مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگا اور میرے مالک سے میری قیمت پوچھی ، وہ اپنے لباس اور وضع قطع سے امیر گھرانے کا لگ رہا تھا۔ آخر کار میں اسے پسند آگیا، میرے مالک نے قیمت لے کر میری رہی اس آدمی کو تھمادی۔ اور میرا مالک میری پیٹھ کو سہلانے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ اب مجھے کسی اور کے ہاں جانا ہوگا۔ میرا مالک اب کوئی اور ہوگا ۔
عالیشان گھر
وہ آدمی مجھے اپنی کار تک لے آیا، اور ہم ایک مختصر سفر کے بعد ایک عالیشان گھر کے گیٹ پر جا کر رکےبکراآگیا، بکرا آگیا۔ گھر کے سب بچے اونچی اونچی آواز میں چلا کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ ہر کوئی اشتیاق سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ گھر کے صحن کے ایک کونے میں مجھے باندھ دیا گیا۔ گھر میں موجود موجود ۔ بچے بہت حد تک شر شرارتی واقع ہے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک لمحے کے لیے بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ کوئی میرا سینگ پکڑتا تو کوئی میری ٹانگ کھینچتا۔ کوئی میرے کانوں پر مارتا تو کوئی میرے بالوں کو کھینچتا ۔ آخر کب تک برداشت کرتا۔
میں نے سوچا ان شہر والوں کو یہ بھی پتا نہیں کہ ایک بکرے کو کیا کھانا دیا جاتا ہے، میں نے وہ سوکھے ٹکڑے نہیں کھائے اور زور زور سے آوازیں نکالنے لگا۔ وہ بڑی بی غصے میں آگئیں اور بولیں : اس کے نخرے تو دیکھو، نہ کچھ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے بس بول بول کر دماغ کھا جاتا ہے۔ میں پہلے ہی گاؤں کو یاد کر کے بہت اداس تھا۔ اوپر سے اس بڑی بی کی باتیں سن کر بہت افسوس ہونے لگا۔ دل تو چاہا ایک زور دار ٹکر اس بڑی بی کو بھی جڑ دوں۔ لیکن صبر کیا۔
حضرت ابراہیم کی سنت
وہ دن میں کئی بار گھر کے صحن میں آکھڑا ہوتا اور مجھے دیکھتارہتا۔ وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ میری قربانی کا دن نزدیک آرہا تھا مجھے پتا چل گیا تھا کہ مجھے اللہ کی راہ میں قربانی کے لئے چنا گیا ہے حارث مجھ سے مانوس ہو گیا تھا۔ حارث نے چاند رات کو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے اداسی بھرے لہجے میں اپنے بابا کو مخاطب کیا۔ بابا کیا یہ ہمیشہ ہمیشہ ہمارے پاس نہیں رہ سکتا ۔۔؟ بابا نے حارث کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا پیارے بیٹے کل ہمیں اسے اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہوگا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کو پورا کرنا ہے۔ یہ ہم پر فرض ہے۔ حارث کو اس کے سوال کا جواب مل گیا تھا۔ چلو بیٹے اب سو جاؤ صبح جلدی اٹھنا ہے، صبح عید قربان ہے۔
حارث کی اداسی
کسی کو میرا خیال تک نہ آیا۔ لیکن حارث عید کے دن بھی مجھے کھانا اور پانی دے رہا تھا۔ آج وہ اداس لگ رہا تھا سب مرد عید کی نماز پڑھ کر آئے اور مجھے گھر کے صحن میں ہی ذبح کرنے کا ارادہ کرنے لگے ۔ میرے گلے سے رسی کو نکال دیا گیا۔ مجھے زمین پر لٹا کر اللہ کے حضور اس کی رضا مندی کے لئے ذبح کیا جانے لگا۔ میں نے آخری بار جسے دیکھا۔ وہ حارث تھا۔ کمرے کی کھڑکی سے جھانکتا ہوا وہ مجھے اپنی بھیگتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ وہ مجھے آخری بار دیکھ رہا ہے۔ میں حارث سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن کچھ نہ کہ پایا۔ میں اسے کہنا چاہتا تھا کہ شکر یہ حارث، میرا خیال رکھنے کا ، مجھے باہر سیرکروانے کا، مجھے پانی پلانے کا ، اداس مت ہو، میں نہ سہی میرا کوئی نہ کوئی دوست پھر آئے گا، ہر سال آتا رہے گا۔ تم بس ہر سال اسی طرح اپنے قربانی کے بکرے کا خیال رکھ کر اسے رخصت کر دیا کرنا۔
Urdu Stories for kids :
1 Comment
Pingback: Best Urdu moral story for kids -Kauwy aur Totay ki kahani